عاشقانِ ذاتِ حق کا مدّعا کلیر میں ہے
غوثِ اعظم کا سجیلا دلرُبا ، کلیر میں ہے
روشنی کی ایک نُورنی فضا ، کلیر میں ہے
جلوہ گر صابرؒ ہے ، شمع، مصطفےٰؐ کلیر میں ہے
صابری میخانے میں بٹتی ہے عرفاں کی شراب
واقعی پینےپلانے کا مزا کلیر میں ہے
ہے بہار افزا علاءُ الدّینؒ صابر کا جمال
یہ مدینے کا شجر ، پھُولا پھَلا ، کلیر میں ہے
ہر نَفَس دل پر اَلَم نَشرَح ہُوئے جاتے ہیں راز
معرفت کی ایسی پاکیزہ فضا کلیر میں ہے
دیدہ و دل حیرتی ہیں ، دیکھ کر جلووں کا حال
کیا بتاؤں پُوچھنے والوں سے ، کیا کلیر میں ہے
کشتیِ اہلِ صفا سے دُور ہے موجِ بَلا
بحرِ عرفانِ خدا کا ناخدا، کلیر میں ہے
جا بجا دُھونی رَمائے بیٹھے ہیں اہلِ طلب
وہ مزا کاشی میں کب ہے ، جو مزا کلیر میں ہے
جلوہ گر ہیں کاکیؒ و گنجِؒ شکر، سُلطانِؒ ہند
دہلی و اجمیر کا روشن دِیا ، کلیر میں ہے
جو تلاشِ حق میں سر گرداں ہیں وہ آئیں اِدھر
جو خدا تک لے چلے ، وہ باخدا کلیر میں ہے
قصرِ باطل کیوں نہ خاکستر ہو اِس کی آنچ سے
شعلہء جاہ و جلالِ مُرتضٰے، کلیر میں ہے
دیکھ لو خود اپنی آنکھوں سے وہاں جا کر نصیؔر !
جلوہء حق کی تجلّی جا بجا کلیر میں ہے