بس اب تو رہتے ہیں آنکھوں میں اَشک آئے ہوئے

بس اب تو رہتے ہیں آنکھوں میں اَشک آئے ہوئے

زمانہ بِیت گیا ہم کو مسکرائے ہوئے


غمِ حسین کا گھاؤ ہے کس قدر گہرا

یہ اُن سے پوچھ جو ہیں دل پہ چوٹ کھائے ہوئے


نبیؐ کے گھر کے اُجالوں کا اب خدا حافظ

اندھیرے شامِ ستم کے ہیں سر اُٹھائے ہوئے


لگی ہے بھیڑ غم و رنج و درد و کُلفت کی

ہم اپنے دل میں ہیں اِک کربلا بسائے ہوئے


عجیب وقت ہے زھرا کے گُل عِذاروں پر

سکینہ پیاسی ہے، اصغر ہیں تیر کھائے ہوئے


یہ ناتوانی، یہ رستے کی سختیاں سجاد

چلوگے کیسے بھلا بیڑیاں اُٹھائے ہوئے


نمازِ عشق کی یہ طُرفگی کوئی دیکھے

حسین سجدے سے اُٹّھے تو سر کٹائے ہوئے


شکست دے نہ سکی عزمِ ابنِ حیدر کو

اجل کھڑی ہے ندامت سے منہ چھپائے ہوئے


سبب خموشی کا پوچھا گیا جو زینب سے

تو رو کے بولیں کہ ناناؐ ہیں یاد آئے ہوئے


یہ شب کہیں شبِ عاشُور تو نہیں لوگو

اُداس چاند ہے تارے ہیں جھِلملائے ہوئے


پلٹ کے آئے نہ اب تک مِرے چچا عبّاس

سکینہ روتی ہے دستِ دعا اُٹھائے ہوئے


نڈھال کر گئی اصغر کی آخری ہچکی

حسین خیمے میں آئے کمر جھکائے ہوئے


بھٹک رہی ہے ابھی تک تلاش میں منزل

گزر گیا ہے کوئی کارواں لُٹائے ہوئے


وہ حق پرست سرِ منزلِ وفا پہنچے

خدا کی یاد کو زادِ سفر بنائے ہوئے


ہم اہلِ دل ہیں، ہمیں اہلِ زر سے کیا مطلب

ہم اپنے شاہِ نجف سے ہیں لَو لگائے ہوئے


نصیؔر! گلشنِ زہرا کے پیاسے پھولوں کو

سَلام کہتے ہیں آنکھوں میں اَشک آئے ہوئے