چرخِ رضا کے نیّرِ اعظم
کرنیں تیری عالَم عالَم
چشمِ فلک اور دیدہء گیتی
یاد میں تیری دونوں پُر نم
فیض ترا ہے جاری و ساری
درد ترا ہے تازہ ہر دم
عشق ترا وہ شعلہء رخشاں
آنچ نہ ہوگی جس کی مدھم
عزم کا طوفاں دل میں اٹھائے
تیرا ذکرِ شہادت پیہم
چمکے ہیں پھر داغ جگر کے
آیا ہے پھر ماہِ محرم
تیری محبت کا ہے تقاضا
کرتے رہیں تقلید تری ہم
عزّت دیں پر مرنا سیکھیں
ہم سے فزوں ہو عظمتِ آدم
ظلمتِ شر یکسر مٹ جائے
خیر کی قدریں ہوں مستحکم
نغمہء حق آفاق میں گونجے
لہرائے ایمان کا پرچم