حق ادا و حق نُما بغداد کی سرکار ہے
کیا تجھے بتلاؤں، کیا بغداد کی سرکار ہے
مرجعِ اہلِ صفا بغداد کی سرکار ہے
سربراہِ اولیا بغداد کی سرکار ہے
اِتباعِ اُسوہء خیرالورٰی میں عمر بھر
پیکرِ خوفِ خدا بغداد کی سرکار ہے
جس کی حق گوئی سے اہلِ شرک و بدعت کانپ اُٹھے
ترجماں توحید کا بغداد کی سرکار ہے
میری تیری حمد میں حرص و غرض بھی ہے شریک
لائقِ حمدِ خدا بغداد کی سرکار ہے
قاضی الحاجات کے در پر رہا جو سجدہ ریز
عجز کی وہ انتہا بغداد کی سرکار ہے
شب کی تاریکی میں تنہا دست بستہ اشک بار
حاضرِ بابِ عطا بغداد کی سرکار ہے
دن کو مصروفِ عبادت شام کوسرگرمِ ذکر
شب کو محوِ التجا بغداد کی سرکار ہے
اولیا کے ساتھ اطلاقِ ولایت میں شریک
شان میں سب سے جدا بغداد کی سرکار ہے
علم و حکمت میں علی مولیٰ کا سجّادہ نشیں
رازدارِ ھل اتیٰ بغداد کی سرکار ہے
کیا نبّوت کے جہانوں میں ہے ذاتِ مصطفیٰ
فقر کی دُنیا میں کیا بغداد کی سرکار ہے
جہل کی بنجر زمیں کو جس نے جل تھل کردیا
علم کی ایسی گھٹا بغداد کی سرکار ہے
قُدرتیں پائیں ، مگر قُدرت پہ اِترایا نہیں
شرحِ تسلیم و رضا بغداد کی سرکار ہے
ہاتھ اُٹھتے تھے مگر مولیٰ کی مرضی دیکھ کر
واقفِ سرِّ دُعا بغداد کی سرکار ہے
دین کو کس نے کیا زندہ جب اُٹھّا یہ سَوال
کہہ اُٹھی خلقِ خدا بغداد کی سرکار ہے
ذاتِ باقی پر مٹا کر اپنی فانی ذات کو
دہر میں نقشِ بقا بغداد کی سرکار ہے
منبعِ حُبِّ نبی، سرچشمہء مہرِ علی
وارثِ آلِ عبا بغداد کی سرکارہے
انبیا کو ناز جس پر ، اولیا کو جس پہ فخر
صاحبِ بختِ رسا بغداد کی سرکار ہے
جس کے ہاتھوں پر ہوئیں ظاہر کرامات ِ کثیر
حیرتوں کی انتہا بغداد کی سرکار ہے
عقلِ ظاہر جس کی چوکھٹ پر رگڑتی ہے جبیں
ایسی قدرت آزما بغداد کی سرکار ہے
عبدِ قادر ہے مگر قادر نے وہ بخشا مقام
مرکزِ رُشد و ہُدٰی بغداد کی سرکار ہے
آج بھی پاتے ہیں اربابِ طلب در پردہ فیض
کیا عطا کا سلسلہ بغداد کی سرکار ہے
جس کی صورت دیکھنے سے یا دآجائے خدا
ایسا عبدِ حق نُما بغداد کی سرکار ہے
اُونچے اُونچوں نے سر آنکھوں پر لیا جس کا قدم
وہ انوکھا پیشوا بغداد کی سرکار ہے
جو خدا کا نام لے کر شرک سے ٹکرا گئے
کربلا والے ہیں یا بغداد کی سرکار ہے
پیر تیرا کون ہےمحشر میں جب پوچھا گیا
مَیں نے برجستہ کہا بغداد کی سرکار ہے
تقشبندی سہروردی ہوں کہ چشتی سب کے سب
مقتدی ہیں ، مقتدٰی بغداد کی سرکار ہے
وعظ فرماتا رہا منبر پہ جو چالیس سال
وہ خطیب ِحق نوا بغداد کی سرکار ہے
بر سرِ منبر تکلّم سن کے بول اُٹھتے عرب
ہیں علی یا لب کشا بغداد کی سرکار ہے
چاہنے والوں کے دل میں آنکھ میں ادراک میں
جلوہ فرما جا بجا بغداد کی سرکار ہے
دل نے پوچھا کون ہے ولیوں سے رُتبے میں بڑا
غیب سے آئی ندا بغداد کی سرکار ہے
کیا بگاڑے گی ترا سر مارلے دُنیا نصیؔر
پُشت پر تیری سدا بغداد کی سرکار ہے