ہو چکا تھا فیصلہ یہ کا تبِ تقدیر کا

ہو چکا تھا فیصلہ یہ کا تبِ تقدیر کا

کر بلا کی ریت ہو گی اور لہو شبیر ؓ کا


سا یۂ دستِ اجل بھی سا تھ ہی جا تا ر ہا

وار جاتا جس طرف بھی حیدری شمشیر کا


تھام کر اپنا کلیجہ اشقیا ء بھی رہ گئے

جب بنا اصغر نشانہ حُرملہ کے تیر کا


کربلا کی شام تھی اور عابدِ بیما ر تھے

بڑھ رہا تھا بوجھ اْن کے پاوں میں زنجیر کا


حْر ریاحی کی پشیمانی بھی کام آہی گئی

مل گیا اس کو بھی حصہ خُلد کی جا گیر کا


جْراتِ شیرِ خدا کی یاد تازہ ہو گئی

کربلا میں دیکھ کر وہ حوصلہ شبیر کا


زندۂ جاوید ہے نامِ شہیدِ کربلا

مٹ گیا ہر لفظ جَور و ظلم کی تحریر کا


اِک سراپا بس گیا ہے آنکھ میں میری جلیل

مصطفیٰﷺ کے لاڈلے کے حْسن کی تنویر کا