انصاف چاہتا ہوں میں دنیا کے ممتحن

انصاف چاہتا ہوں میں دنیا کے ممتحن

صبر خلیل کے بھی سبھی زاویے تو گن

لیکن سکونِ شاہ بھی دیکھ امتحاں کے دن

سب کچھ لٹا کے بھی مرا مولا ہے مطمئن

اکبر وہ سو رہا ہے، یہ اصغر کی قبر ہے

شبیر چپ کھڑے ہیں، یہ معیارِ صبر ہے


بے شک ترے نبی کا مقدر چمک گیا

بیٹے کو لے کے موت کی سرحد تلک گیا

آنکھیں تھیں بند پھر بھی کلیجہ دھڑک گیا

تیرا خلیل ایک ذبیحہ پہ تھک گیا

کتنے حسین، کتنے جواں کیا صبیح تھے

میرے خلیل کے تو بہتر ذبیح تھے


اس سمت اک نبی کا ارادہ اٹل نہیں

اس سمت وہ عمل کہ گھڑی کا خلل نہیں

بیٹے کی لاش دیکھ کے ماتھے پہ بل نہیں

برچھی کو کھینچنے کے لیے ہاتھ شل نہیں

برچھی کھنچی تو نبض زمانے کی رک گئی

آنکھیں اٹھیں تو موت کی گردن بھی جھک گئی