جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی

جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی وقفِ خزاں تھے

دریاؤں کے مالک تھے مگر تشنہ دہاں تھے


پا برہنہ ‘ تپتی ہوئی راہوں پہ رواں تھے

وہ لوگ کہ جو راحتِ دل ‘ راحتِ جاں تھے


جو حسن تھے ‘ رحمت تھے ‘ محبت تھے ‘ اماں تھے

آنچ آئی جو سچ پر تو وہی شعلہ بجاں تھے


تھا وہ بھی عجب وقت کہ اِک دشت کی جانب

جاتے ہوئے ‘ آتے ہوئے لمحے نگراں تھے


حق بات پہ اَڑنے کی حقیقت کے مقابل

باقی جو حقائق تھے وہ سب وہم و گماں تھے


جو خون کا قطرہ تھا وہ تاریخ کی لَو تھا

نیزوں پہ جو سر تھے ‘ ابدیت کے نشاں تھے