لہو لہو دشتِ کربلا ہے

لہو لہو دشتِ کربلا ہے

وہ دیکھو عباس ؓ تن دریدہ


جوان اکبرؓ بدن دریدہ

لہو میں غلطاں جنابِ قاسمؓ


وہ بی بی زینبؓ کے شاہزادوں کی خاک و خوں میں نہائی لاشیں

وہ ننّھا مُنّا سا پیاسا اصغرؓ


گلوئے نازک پہ تِیر کھا کے ابد کی جھولی میں سو گیا ہے

اور ایک ننھی یتیم بچّی کی سسکیوں پر


ہوا کے جھونکے بھی نوحہ گر ہیں

غنیم اپنی کسی کمانوں میں تیر جوڑے


چلے ہیں آلِ نبیؐ کے خیموں کو راکھ کر کے

برہنہ پا بیبیوںؓ کے سر سے ردائیں چھینے


چمکتے بھالوں پہ سر شہیدوں کے یُوں سجائے

کہ جیسے کتنے ہی سُورجوں کے عَلَم اُٹھائے


رواں دواںہیں

رواں دواں ہیں کہ پائے تختِ یزیدِ فاسق کو چُوم لیں گے


وہ سوچتے ہیں کہ ان کو سفاک محنتوں کے صِلے ملیں گے

مگر وہ کِس درجہ بے خبر ہیں


کہ اندھے بھُوکے شکم کا دوزخ نہ بھر سکا ہَے نہ بھر سکے گا

یہی وہ سچّی بشارتیں ہیں


کہ جن پہ جبردستم کے تیروں کی بارشیں تھیں

اِنہی میں ایمان و آگہی کا ہے استعارہ


یقین و عزم و ثبات کا ضو فشاں اشارہ

متاعِ جاں کو نثار کر کے جو دینِ حق کو بچا گیا ہے


نئے قرینے سے زندہ رہنا سکھا گیا ہے

جواِک مجسّم اُصول بھی ہَے


وہ نُورِ چشم بتولؑ بھی ہے

علیؑ کے گلشن کا پھُول بھی ہے


سوارِ دوشِ رسولؐ بھی ہے