لاکھ نالہ و شیون ایک چشمِ تر تنہا
ہے حسین کے غم میں اشک معتبر، تنہا
دینِ حق پھَلا پھولا جس کے سائے میں رہ کر
دشتِ کربلا میں تھا ایک وہ شجر، تنہا
کاروانِ شبّیری فرد تھا شجاعت میں
فوج کے مقابل تھے ، لوگ بے خطر ، تنہا
ہے حسین کو حاصل قُربتِ نَسَب اُس کی
فرش سے ہوا جس کا ، عرش تک گُزر ، تنہا
عرصہء شہادت میں بے مثال ہیں شبّیر
جادہء فلک پر ہے مِہر ، جلوہ گر ، تنہا
اُن کی یاد رکھتی ہے قُربتوں کے منظر میں
یہ نہ ہو تو مُشکل ہے زیست کا سفر، تنہا
دُشمنوں کے نرغے میں یُوں حسین اکیلے تھے
ہو ہُجوم ِ مژگاں میں ، جس طرح نظر ، تنہا
ہو کہ تہہ نشیں پالے گوہرِ نجف تُو بھی
سوچ کے سمندر میں ، اک ذرا اُتر! تنہا
شکر کر نصیؔر ! آخر ، مِل گیا در ِ شبیر
ورنہ ٹھوکریں کھا تا یُوں ہی دربدر، تنہا