نِقاب اپنے رُخ سے اٹھا غوثِ اعظم

نِقاب اپنے رُخ سے اٹھا غوثِ اعظم

مجھے اپنا جلوہ دکھا غوثِ اعظم


مجھے ایسا شیدا بنا غوثِ اعظم

کہ ہو جاؤں تجھ پر فدا غوثِ اعظم


مِرے پیر روشن ضمیر آپ کو تو

مرے حال کا ہے پتا غوثِ اعظم


تمہارے ہیں جتنے مُرید اُن سبھی میں

بُرا ہوں، بنا دو بھلا غوثِ اعظم


بروزِ قِیامت ہمیں اپنے جھنڈے

تلے دیجئے گا جگہ غوثِ اعظم


جو بیماریوں میں گھرے ہیں انہیں تم

دِلادو خدا سے شِفا غوثِ اعظم


مُریدین کو جو ستاتے ہیں جِنّات

خدارا اُنہیں دو بھگا غوثِ اعظم


نظر سے یا جادو سے جو ہیں پریشاں

ہو ان پر بھی چشمِ عطا غوثِ اعظم


کلیجا شیاطیں کا تھرّا اُٹھے گا

پکارو سبھی مل کے یاغوثِ اعظم


سجائیں عِمامہ بڑھائیں جو داڑھی

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


وہ بہنیں جو پہنیں سدا’’ مَدنی بُرقع‘‘

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


جو ہیں وَقف، سنّت کی خدمت کی خاطر

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


جو روزانہ دیتے ہیں نیکی کی دعوت

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


سفر قافلے میں جو کرتے ہیں ہر ماہ

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


جو دیں راہِ مولا میں بارہ مہینے

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


جو اپناتے ہیں ’’مدنی انعام‘‘ اکثر

انہیں حشر میں بخشوا غوثِ اعظم


دمِ نَزْع پانی اُترتا نہیں ہے

پِلا شربتِ دید یاغوثِ اعظم


ہے عطارؔ کو سَلبِ ایماں کا دھڑکا

بچا اس کا ایماں بچا غوثِ اعظم

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

قلت کا کچھ گلہ ہے نہ شکوہ کمی کا ہے

ایثار کے خلوص کے پیکر تھے گل حسن

تلوار

مِرا جہاں میں ظُہور و خِفا مُعینی ہے

مرے دل میں سمائی ہے عقیدت غوثِ اعظم کی

مُجھ کو ہے میری جان سے پیارا علی علی

یا حسینؑ آپ کی شہادت تو

یا حسینؑ ابن علیؑ

سناں پہ قاریٔ قرآن سر حسین کا ہے

کس کس مقام سے تھا گزارا سر امامؑ