رکھتا ہے جو غوثِ اعظم سے نیاز

رکھتا ہے جو غوثِ اعظم سے نیاز

ہوتا ہے خوش اُس سے مولیٰ بے نیاز


ہوں گی آساں ساری تیری مشکلیں

صدقِ دل سے غوث کی کردے نیاز


ہے فضیلت گیارہویں تاریخ میں

اس لیے افضل ہے اس میں دے نیاز


ساز و ساماں کی نہیں تخصیص کچھ

جو مُیَسَّر ہو اسی پر دے نیاز


ہاں اَدَب تعظیم لازم ہے ضرور

بے اَدَب ہرگز نہ یہ پائے نیاز


ہیں جو بدمذہب وہابی رافضی

ہے حرام اُن کو اگر کچھ دے نیاز


گاندھوی بھی بے ادب گمراہ ہے

ہے حرام اس کو اگر کچھ دے نیاز


اے جمیلؔ قادری ہشیار باش

عمر بھر چھوٹے نہ یہ تجھ سے نیاز

شاعر کا نام :- جمیل الرحمن قادری

کتاب کا نام :- قبائلۂ بخشش

دیگر کلام

صدمئہ فرقت سہا جاتا نہیں

پھر دل میں مرے آئی یاد شہ جیلانی

تمہارے نام یہ سب کچھ ملا غریب نواز

کوئی بتائے کوئی کہیں ہَے حسین سا

مقصُود ہے اصل میں تو اَزواج کی ذات

بزمِ محشر منعقد کر میرِ سامانِ جمال

ولیاں دے ولی ہو باواجی سلطان دے سلطان تسیں

غوثِ اعظم کی جس پر نظر پڑ گئی

کہیا حُسن حُسین دا پچھنا ایں

کیسے کہوں کہ چاند ہیں تارے حسینؑ ہیں