شعر گوئی میں جُدا ہے طرزِ اظہارِ فریدؒ

شعر گوئی میں جُدا ہے طرزِ اظہارِ فریدؒ

زندگی دیتے ہیں جان ودل کو ، افکار ِ فرید ؒ


مرحبا! حاصل ہے سب کو آج ، دیدارِ فریدؒ

ہے نظر کے سامنے اِس وقت دربارِ فرید ؒ


جس کے پلّے میں ہے کچھ سرمایہء سوز و گداز

سَر کے بل وہ چل کر آتا ہے ببازارِ فریدؒ


اس فریدی میکدے میں ہے معارف کی شراب

پی خدا کا نام لے کر اور قدّح خوارِ فریدؒ!


عشق کے موتی لُٹاتی ہے بہ اندازِ سخن

رنگ پر آتی ہے جب طبعِ گُہرِ بارِ فریدؒ


ہر بُنِ مُو سے صدا اُٹھتی ہے ذکرِ ذات کی

دل کو تڑپاتا ہے جس دَم ، سوزِ گُفتارِ فریدؒ


تجھ کو آئے گا نظر ہر سمت، یُوسفؑ کا جمال

اک ذرا بن کر زُلیخا دیکھ ! بازارِ فریدؒ


چہرہء انور کی جانب با ادب اُٹھّے نگاہ

جلوہ گاہِ کبریا ہے ، چشمِ بیدارِ فریدؒ


کور چشمانِ جہاں کب دیکھ سکتے ہیں اِسے

دیدہء عارف سے پُوچھو ، شانِ گلزارِ فریدؒ


حق یہ ہے حق پر ہیں یہ ، حق اِن کا ہے یہ حق کے ہیں

طالبِ حق ، ہے تو پھر بن جا طلبگار ِ فریدؒ


مطلعِ ہستی یہ چمکیں گے سدا مثلِ نُجُوم

مِٹ نہیں سکتے کبھی دُنیا سے ، آثارِ فریدؒ


تاجداروں کو وہ خاطر میں کبھی لاتا نہیں

کس قدر دل کا غنی ہے ، کفش بردارِ فریدؒ


تجھ کو مِل جائیں گی پھر، چشتی نظامی مستیاں

دیکھ تو بن کر ذرا اک روز ، میخوارِ فریدؒ


تجھ کو مِل جائے گا سب کچھ ، تُو غنی ہو جائے گا

ساری دُنیا چھوڑ کر بن جا ، خریدارِ فریدؒ


جلوہ فرما دیکھ لے شاید کسی کو بام پر

بیٹھ جا بستر لگا کر زیرِ دیوارِ فریدؒ


جھُومتے پیڑوں کو جب دیکھا تو یُوں مجھ کو لگا

جیسے خود روہی کے ہونٹوں پر ہُوں اشعارِ فریدؒ


تا ابد قائم رہے یارب! فریدی میکدہ

سب کو پلواتی رہے یہ چشمِ مَے بارِ فریدؒ


غوثِ اعظمؒ کے حوالے سے نصیؔر آیا ہے آج

در سے پھیریں گے نہ خالی اُس کو ، سرکارِ فریدؒ