تیرے دَر پر مَیں آیا ہُوں خواجہؒ

تیرے دَر پر مَیں آیا ہُوں خواجہؒ ، میرا تجھ بِن سہارا نہیں ہے

تیرے دیدار کی آرزوہے، اور کوئی تمنّا نہیں ہے


مَیں نے دیکھے حسینانِ عالَم ، کوئی تُم سا انوکھا نہیں ہے

جب سے دیکھی ہے صُورت تمہاری ، کوئی نظروں میں جچتا نہیں ہے


مَیں ترے دَر کا ہُوں اک سوالی ، کوئی ہے میرا وارث نہ والی

پھیرنا دَر سے سائل کو خالی ، یہ کریموں کا شیوا نہیں ہے


اِن گداؤں کا کیا ، یہ گدا ہیں ، شاہ بھی تیرے دَر پر فدا ہیں

فیض جس پر نہ ہو تیرا خواجہؒ کوئی دُنیا میں ایسا نہیں ہے


کیوں دُوئی کا یہاں ہو گُماں بھی ، ہے بہارِ مدینہ یہاں بھی

دیکھ لے شہرِ خواجہؒ کی گلیاں ، جس نے طیبہ کو دیکھا نہیں ہے


اُن کی آمد کا ہُوں انتظاری ، جان و دل سے ہُوں اُن پر مَیں واری

لے اجل ! آئی اُن کی سواری ، یہ حقیقت ہے ، دھوکا نہیں ہے


اک کرشمہ ہے اُن کی نظر میں ، اک کشش چشم، جادُو اثر میں

دیکھ لے جو بھی اک بار اُن کو، اُس کو پھر چین مِلتا نہیں ہے


منتظر اِن کی رحمت کے رہیئے ، فیضِ رُوحانیاں اِس کو کہیئے

مانگ کر یہ بھی دیتے ہیں رب سے ، یہ عنایت ہے ، سودا نہیں ہے


میرے خواجہؒ کا یہ آستاں ہے ، بٹ رہا ہے محمدؐ کا صدقہ

کوئی دامن تو پھیلا کر دیکھے، کون کہتا ہے ، مِلتا نہیں ہے


کیا خبر تجھ کو کیا ہے عقیدت ، جان لیوا ہے رسمِ محبّت

یار کے نام پر سَر کٹانا ، عاشقی ہے ، تماشا نہیں ہے


جام و ساغر تو اپنی جگہ ہیں ، پینے والے سمجھتے ہی کیا ہیں

جس کو وہ اک نظر سے پلا دیں ، اُس کو پھر ہوش آتا نہیں ہے


دل سے مَیں نے دُعا کی ہے اکثر ، زیست کٹ جائے خواجہؒ کے دَر پر

دُور ہُوں ، ہائے میرا مقدّر ، میری قسمت مَیں ایسا نہیں ہے


میرا حصّہ یہیں ہے ازل سے ، کس لیے میں کہیں اور جاؤں

میرے خواجہؒ کی چوکھٹ سلامت، اِس درِ پاک پر کیا نہیں ہے


پی لیا جامِ توحید مَیں نے ، یہ کرم ہے نصیؔر اِن کے دَر کا

مانگنے غیر کے دَر پہ جانا، میری غیرت نے سیکھا نہیں ہے