تھا مِہر صِفَت قافلہ سالار کا چہرہ
نیزے پہ دمکتا رہا ، سردار کا چہرہ
وہ آئنہ تھا چہرہء شبیر کہ جس میں
آتا تھا نظر ، حیدرِ کرّار کا چہرہ
صد حیف وہ خود یُوں بھرے بازار سے گُزرے
جس گھر نے نہ دیکھا کبھی، بازار کا چہرہ
ہے پیاس کی شدّت ، وہ سکینہ کے لبوں پر
مثلِ عَلَم اُترا ہے، علمدار کا چہرہ
آثار کچھ ایسے تھے زینب کی نظر سے
دیکھا نہ گیا ، عابدِ بیمار کا چہرہ
اشکوں کی طرح تھے جو ستارے شبِ عاشُور
تھا چاند بھی اک اُں کے عزادار کا چہرہ
وہ خُطبہء زینب کہ علی بول رہے تھے
ہر لفظ پہ فق تھا ، بھرے دربار کا چہرہ
دیکھو گے خورشیدِ قیامت کے مقابل
لَو دے گا نصیؔر اُن کے پرستار کا چہرہ