ذوالفقارِ نبی جب علی کو ملی
دستِ شبیر کی زیب و زینت بنی
راہِ اسلام میں کربلا میں چلی
دین کو بخش دی اک نئی زندگی
گونج اٹھا جگ میں پھر نعرہء حیدری
کہہ اٹھی ساری دنیا علی یا علی
رائیگاں کیسے جاتا نبی کا لہو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
زیدی سادات واسط میں آ کر رکے
اور واسط سے ہندوستاں کو چلے
ہند میں شمس دیں التمش سے ملے
بلگرام اور اودھ کے وہ حاکم بنے
جانشیں ان کے مارہرہ آکے بسے
قادریت کے ساغر چھلکنے لگے
خوشبو بغداد کی رچ گئی چار سو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
شاہِ برکت کا جب جگ میں چرچا ہوا
عالمِ سنیت کہہ اٹھا مرحبا
شاہِ آلِ محمد کی پھیلی ضیا
اچھے ستھرے نے دیں کو مجلّٰی کیا
نام آلِ رسول احمدی کا بڑھا
اعلیٰ حضرت نے پھر جھوم کر یہ کہا
نام مارہرہ کا لیجیے با وضو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
مرکزِ سنیت ہے بریلی شہر
اور بریلی کا قبلہ ہے برکت نگر
جس کو کرنا ہو طیبہ نگر کا سفر
مارہرہ سے ہی جاتی ہے سیدھی ڈگر
شاہ نوری کی جس پر پڑی اک نظر
فضلِ حق سے بنا وہ ولی سر بسر
میرے نوری کی نورانیت کُو بہ کُو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
مسلکِ اعلیٰ حضرت کے نعرے لگیں
نام کے پیر زادوں کے سینے جلیں
وقت پڑنے پہ ان کے ہی فتوے پڑھیں
اور حوالے ان ہی کی کتابوں سے دیں
لے کے نامِ رضا دشمنوں سے لڑیں
پھر بھی نامِ رضا پر وہ جل بھن مریں
نظمی ایسوں کے منہ پر کرو آخ تھو
پھر لگاؤ وہی نعرہء اللہ ہو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو