جوارِ زندگی میں بھی تری خوشبو

جوارِ زندگی میں بھی تری خوشبو مہکتی ہے ترے دم سے اُجالا ہے

جوازِ زندگی کے لب پہ بھی تیری ہی باتیں ہیں فقط تیرا حوالہ ہے


ہدایت کیلئے رب نے بتایا ہے جو انساں کو تمہارا ہے درِ اقدس

تمہی ہو سرورق اس کا جبینِ علم پہ جس نے لکھا جو بھی مقالہ ہے


ترے آنے سے پہلے ظلمتوں کا دور تھا ہر سو فقط وحشت کا منظر تھا

ترے دستِ کرم نے حکمت و منشورِ رحمت نے دیا سب کو سنبھالا ہے


اِدھر دُنیا میں بھی آقاؐ سدا تیری حکومت ہے تری نسبت کا سکہ ہے

اُدھر محشر میںبھی عزت تری ہے دیکھنے والی ہر اک عظمت سے بالا ہے


ترے عشاق کے جذبوں کے آگے ہر اذیّت ہار جاتی ہے ہمیشہ ہی

دِلوں کے زخم کہتے ہیں تری چاہت کا بھی آقاؐ نشہ کتنا نرالا ہے


شکیلِؔ بے نوا کو بھی سلامی کی اجازت دیں فرشتو تم ذرا کہنا

تہی دامن ہے پر دل میں ندامت اور اِک اشکوں کی مالا ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

دوستو! ہو سبیل جینے کی

مرا محمد میرا سہارا ، میرا محمد ہی آسرا اے

رکھتے نہیں ہیں جو درِ خیر البشرؐ پہ ہاتھ

خدا کی راہ پر سب کو چلانے آ گئے آقا

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

مدینے والیا کر دے عطاواں

تُو ہر غم کا دافِع اے مَرفوع و رافِع

ترے کرم کا خدایا کوئی حساب نہیں

اللہ اللہ طیبہ و بطحٰا کی پاکیزہ زمیں

نہ چھیڑو ذِکرِ جنت اب مدینہ یاد آیا ہے