آپؐ اس طرح مری خلوتِ جاں میں آئے
میرے اعمالِ شب و روز اماں میں آئے
سارے احکامِ خدا جن کی زباں میں آئے
منزلت اُنؐ کی بھلا کس کے گماں میں آئے
میرے مولا کا کرم‘ میری زمیں کا اعزاز
سب جہانوں کے امیںؐ میرے جہاں میں آئے
نعمتِ امر و نہی عرشِ عُلیٰ سے لے کر
آپؐ اس کارگہِ سُود و زیاں میں آئے
آپؐ کی ذات ہے وہ دائرہ ِ وصف و کمال
جو تصور میں سمائے نہ گماں میں آئے
اتنا آساں تو نہیں آپؐ کی سیرت کا شعُور
رُوح کی راہ سے گزرے تو بیاں میں آئے
آپؐ کے ذکر کی یہ رفعتیں اللہ اللہ
نام اعلانِ خدا بن کے اذاں میں آئے
جن کی تابش میں نظر آئیں خد و خالِ حضُورؐ
ایسے انوار بھی چشمِ نگراں میں آئے
اُنؐ کے منکر کے لئے کوئی نہیں جائے پناہ
اُنؐ کے قدموں میں جو پہونچے وہ اماں میں آئے
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام