آسرا ہے شفیعِ محشر کا
شائبہ تک نہیں مجھے ڈر کا
جیسی مرضی ہے میرے آقا کی
ویسا منشاء ہے ربّ اکبر کا
جانے کتنے زمانے لگ جائیں
وصف لکھنے کو روئے انور کا
کیسے خیرالبشر کی سیرت سے
دیکھئے سر قلم ہوا شر کا
ان سے بہتر کی بات دور کی ہے
کوئی آیا نہیں برابر کا
چاند سورج کہیں نہیں لگتے
ذکر ہے ان کے روئے انور کا
حشر میں ان کے دستِ اطہر سے
ہاتھ آئے گا جام کوثر کا
تم سے روشن شفیقؔ نعتوں سے
نام چھتیس گڑھ کے بَستر کا
بس لگالے دل میں اسکوہےبہت سستاعلاج
آتشِ عشقِ نبی ہے نارِ دوزخ کا علاج
پڑھ درودِ پاک اُن پر اور اُن کی آل پر
اضطرابِ قلب کا ہے یہ بڑا اچھا علاج
اپنی آنکھوں میں لگائو خاکِ پائے مصطفےٰ
ضعفِ بینائی کا ہے اے عاشقو ! عمدہ علاج
گالیاں کھا کر دیا کرتے دعائیں مصطفےٰ
دشمنوں کا نرم گفتاری سے ہوتا تھا علاج
دیکھ کر چارہ گروں نے یک زباں ہوکر کہا
اس مریضِ عشق کا ہے گنبدِ خضرا علاج
ہے عبث واللہ یہ چارہ گروں کی دوڑ دھوپ
صرف دامانِ کرم ہے دیدۂِ نم کا علاج
ظلم اپنی جان پر کرکے نہ بیٹھ ایسے شفیقؔ
بارگاہِ مصطفےٰ میں چل وہیں ہوگا علاج
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت