اب تنگیِ داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ!
!ہیں آج وہ مائل بہ عطا اور بھی کچھ مانگ
ہیں وہ مُتوجہِّ، تو دُعا اور بھی کچھ مانگ
!جو کچھ تجھے مِلنا تھا مِلا، اور بھی کچھ مانگ
ہر چندِ کہ مولاؐ نے بھَرا ہے تِرا کشکول
!کم ظرف نہ بن ہاتھ بڑھا، اور بھی کچھ مانگ
چھُو کر ابھی آئی ہے سرِ زلفِ محمدؐ
!کیا چاہیے اے بادِ صبا اور بھی کچھ مانگ
یا سرورِؐ دیں، شاہِؐ عرب، رحمتِؐ عالم
!دے کر تہِ دل سے یہ صدا اور بھی کچھ مانگ
سرکارؐکا دَر ہے درِ شاہاں تو نہیں ہے
!جو مانگ لیا، مانگ لیا، اور بھی کچھ مانگ
جن لوگوں کو یہ شک ہے کرم اُن کا ہے محدود
!اُن لوگوں کی باتوں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ
اُس دَر پہ یہ انجام ہُوا حُسنِ طلب کا
!جھولی مِری بھَر بھَر کے کہا اور بھی کچھ مانگ
سُلطانِؐ مدینہ کی زیارت کی دُعا کر
!جنّت کی طلب چیز ہے کیا اور بھی کچھ مانگ
دے سکتے ہیں کیا کچھ کہ وہ کچھ دے نہیں سکتے
!یہ بحث نہ کر، ہوش میں آ اور بھی کچھ مانگ
مانا کہ اِسی دَر سے غنی ہوکے اُٹھا ہے
!پھر بھی در سرکارؐ پہ جا اور بھی کچھ مانگ
پہنچا ہے جو اُس دَر پہ تو رہ رہ کے نصیرؔ آج
!آواز پہ آواز لگا! اور بھی کچھ مانگ