اک مصرعۂ ثنا جو کھلا

اک مصرعۂ ثنا جو کھلا آسماں کی سمت

چشمِ کریم ہونے لگی عاصیاں کی سمت


رندوں کا یہ ہجوم ہے کیوں میکدے میں آج

کیوں جا رہے ہیں آج وہ پیرِ مغاں کی سمت


ہیں غمزدوں کے حال سے ہر حال با خبر

کرتے ہیں التفات وہ آہ و فغاں کی سمت


سدرہ پہ جا کے رک گئے روح الامین بھی

میرے حضور بڑھ گئے ہیں لامکاں کی سمت


رحمت ہے دو جہان کو میرے نبی کی ذات

تکتے ہیں چین کے لئے تسکینِ جاں کی سمت


ورثہ ملا ہے حضرتِ حسان کا جسے

بڑھنے لگیں محبتیں اس نعت خواں کی سمت


مشکل نے جب کبھی بھی پریشاں کیا مجھے

دیکھا نظر اٹھا کے اسی مہرباں کی سمت


آتے نہیں ہیں مجھ سے گنہ گار ہی فقط

قدسی بھی آ رہے ہیں ترے آستاں کی سمت


مجھے کو ملے حضور کی پہچان اے خدا

میں جا رہا ہوں قبر میں اک امتحاں کی سمت


لیتے ہی نام سرورِ کونین کا جلیل

راحت بڑھا رہی ہے قدم ناتواں کی سمت

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

تمنّا ہے شعور و آگہی کی

درِ اقدس پہ جا کر ہم

اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

غم ہے افتاد پرانی میری

کارواں چل پڑا میرے سالار کا

اک مصرعۂ ثنا جو کھلا

گر تیرے پاس خود کی ہے پہچان

میں چلتا ہوں جو سر اپنا اُٹھا کے

رحمتِ عالَم ﷺ کے در سے لَو لگانی چاہئے

محمد ﷺ سے الفت اُبھارے چلا جا

جب حِرا کا پیامِ ہُدٰی نُور ہے