عکسِ رُوئے مصطفےٰؐسے ایسی زیبائی مِلی
کھِل اُٹھا رنگِ چمن، پُھولوں کو رعنائی مِلی
سبز گنبد کے مناظر دیکھتا رہتا ہُوں میں
عشق میں چشمِ تصوّر کو وہ گیرائی مِلی
جس طرف اُٹّھیں نگاہیں محفلِ کونین میں
رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیں کی جلوہ فرمائی مِلی
ارضِ طیبہ میں میّسر آگئی دو گز زمیں
یُوں ہمارے مُنتشر اجزا کو یکجائی مِلی
اُن کے قدموں میں ہیں تاج و تخت ہفت اقلیم کے
آپؐ کے ادنیٰ غلاموں کو وہ دارائی مِلی
بحرِ عشقِ مصطفےٰؐ کا ماجرا کیا ہو بیاں
لُطف آیا ڈوبنے کا جتنی گہرائی مِلی
چادرِ زہراؓ کا سایہ ہے مِرے سَر پر نصیرؔ
فیضِ نسبت دیکھئے، نسبت بھی زَہرائی مِلی