اپنے آقا، اپنے ماویٰ، اپنے ملجا کے قریب

اپنے آقا، اپنے ماویٰ، اپنے ملجا کے قریب

کاش میں رہتا شہنشاہِ مدینہ کے قریب


ہم نمازِ عشق پڑھ لیں چل کے قبلہ کے قریب

یعنی شاہِ بحر و بر کے آستانہ کے قریب


آیت ِ’’لاترفعوا اصواتکم‘‘ قرآں میں ہے

زائرو ! ہر دم رہو تم اس کے معنیٰ کے قریب


کاش ہم بھی عاشقانِ مصطفےٰ مرتے وہاں

دفن ہو جاتے شہنشاہِ مدینہ کے قریب


دھڑکنیں دل کی نہ کیوں مسرور ہوں صبح ومسا

ہیں ہمیشہ نامِ احمد حرفِ تازہ کے قریب


کیا کسی کو اس قدر سرکار کی قربت ملی

جس قدر تھے میرے آقا، ماں خدیجہ کے قریب


دامنِ عشقِ نبی چھوٹے نہ ہاتھوں سے شفیقؔ

جارہے ہو دھیرے دھیرے تم تو دنیا کے قریب

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

معطر معطر پسینہ ہے ان کا

تیرے اذکار سے روشن ہے مقدر میرا

خوش نصیبیم کہ برِ درگہ ناز آمدہ ایم

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

اپنے اللہ کا سب سے بڑا اِحساں بن کر

عشق ایسا ملال دیتا ہے

دیکھ اے دل! یہ کہیں مُژدہ کوئی لائی نہ ہو

ہیں خوب گل و غنچۂ تر خار ہے دلکش

سوہنا اسم اوہدا اُچّا خُلق اوہدا ،

مصلحت یا صلحِ گُل کی پیروی کرتے نہیں