اشک یادِ نبی میں جب نکلیں مشعل راہ بن کے آتے ہیں

اشک یادِ نبی میں جب نکلیں مشعل راہ بن کے آتے ہیں

عاشقِ مصطفیٰ کی منزل تک نقرئی راستہ بناتے ہیں


ہم کو پاسِ ادب ہے اس دَر کا جب درِ مصطفیٰ پہ جاتے ہیں

لب کو دیتے ہیں حکم ِ خاموشی ، حال دل اشک ہی سناتے ہیں


چشمِ تر کو تلاش کرتی ہے رحمت حق ، یہ جان کر ہم بھی

داغَ دامن کے دھونے جاتے ہیں ، داغ دامن کے دھو کر آتے ہیں


ان کی رحمت کو جوش آتا ہے آ لپٹتی ہے مرے سینہ سے

میری آنکھوں سے ان کے قدموں تک میرے آنسو جو بہہ کے جاتے ہیں


ناز ان کے اگر اُٹھائیں نہیں ، اشک بھی روٹھ جائیں ، آئیں نہیں

غمِ طیبہ میں دل لہو کر کے پہلے مشروب اُنھیں پلاتے ہیں


جن کی آنکھوں سے روز و شب آنسو بہہ رہے ہیں فراقِ طیبہ میں

خود وہ جائیں نہ جائیں طیبہ تک ، ان کے آنسو ضرور جاتے ہیں


خوگرِ ضبط ہیں ادیبؔ بہت ، ان کے چہرے کو دیکھنے والو

ان کا باطن ہے جس طرح پنہاں ، اشک بھی کب نظر میں آتے ہیں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

نبی سارے ای شاناں والے نے محبوب دی مثل ناں کوئی اے

وہ زمیں ہے اور وہ آب و ہوا ہی اور ہے

دلدار جے راضی ہوجاوے دنیا نوں مناؤن دی لوڑ نئیں

سجدہ، قیام، عجز و عبادت کچھ اور ہے

آپ ہیں جانِ ارض و سما

رب کا عرفانِ حق آگہی دے گئے

بعدِ نماز اپنا یہی اک اصول ہے

مدینہ جو دل میں نہاں ہے تو کیا غم

غمِ دنیا سے فارغ زند گی محسوس ہوتی ہے

محمد رسول معظم دے در تے جبینِ عقیدت جُھکاؤندا رہواں گا