اشک ہے نامہ بر عقیدت کا

اشک ہے نامہ بر عقیدت کا

دردِ انساں ثمر عقیدت کا


لفظ میں ڈھال کر کیا تقسیم

ہاتھ آیا جو زر عقیدت کا


سائے بانٹے گا دشتِ امکاں میں

تا قیامت شجر عقیدت کا


التفاتِ رسولِؐ اکرم سے

ضو فشاں ہے نگر عقیدت کا


رنجِ تنہائی دُور دُور رہا

ساتھ تھا عمر بھر عقیدت کا


ربِّ نطق و نوا نے کھولا ہے

میرے سینے میں در عقیدت کا


سنگ ہم نے پگھلتے دیکھے ہیں

یا خدا یہ اثر عقیدت کا


ضامنِ منزلِ رضا تائب

کیف پرور سفر عقیدت کا

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

نعت کیا لکھوں؟ تخیل ورطۂ حیرت میں ہے

میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے

اُن کا خیال دل میں ہے ہر دم بسا ہوا

ہو مبارَک اہلِ ایماں عیدِمیلادُالنَّبی

میں راہ میں ہوں گنبدِ خضرا ہے نظر میں

اکٹھے ہوگئے جب بھی ترے مے خوارِ مے خانہ

یہ دن میرے نبی کی پیدائش کا دِن ہے

ہو گئی دور ہے رسوائی ترےؐ آنے سے

چاند،سورج میں،ستاروں میں ہے جلوہ تیرا

اِک بار پھر کرم شہِ خیرُالانام ہو