بس شہرِ سرکار کو جانا اچھا لگتا ہے
اُن کے شہر کا آب و دانہ اچھا لگتا ہے
سوچیں ہوں مرکُوز مری ان کے مُکھڑے پر
سوچوں کا یہ تانا بانا اچھا لگتا ہے
صبح و مسا ان کے دروازے پر جا کر کے
بس اپنے احوال سُنانا اچھا لگتا ہے
تیرا بھی اب دیکھ بُلاوا آ پہنچا ہے
ان کا یہ پیغام سُنانا اچھا لگتا ہے
میرے سر پر آقا کے نعلین سجے ہوں
سر پر ایسا تاج سجانا اچھا لگتا ہے
اُنْ سا ہو سالار تو منزل پاس ہے میرے
منزل کو آسان بنانا اچھا لگتا ہے
تن من دھن اولاد مری ، یہ مال بھی میرا
فوز و فلاح کے کام میں آنا اچھا لگتا ہے
اور کسی سے کیا لینا دینا ہے ہم کو
ہم کو تو وہ پاک گھرانہ اچھا لگتا ہے
قرنوں کا سرتاج جلیل ہے ان کا زمانہ
بس وہ وقت وہ دَور سُہانا اچھا لگتا ہے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت