بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

بگڑی ہوئی امت کی تقدیر بناتے ہیں

سرکار کی محفل میں سرکار بھی آتے ہیں


انوار برستے ہیں رحمت کے سرِ محفل

جب شاہِ مدینہ کی ہم نعت سناتے ہیں


دامانِ رسالت میں ملتی ہے پناہ ان کو

جو سرورِ عالم کے دربار میں جاتے ہیں


اس نامِ محمدؐ سے ہر سمت اجالا ہے

سب اہلِ نظر اس کو آنکھوں سے لگاتے ہیں


کچھ اشک عقیدت کے سرمایہ ہے آنکھوں کا

ہر روز یہی موتی پلکوں پہ سجاتے ہیں


اس حشر کے کیا کہنے جس روز ظہوریؔ کو

پیغام یہ آئے گا سرکار بلاتے ہیں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

جب سرِ حشر مرا نام پُکارا جائے

پانی لالا پھاوے ہوئے

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

میں لب کُشا نہیں ہوں اور محوِ التجا ہوں

اے ربِّ نوا ڈال دے دامن میں نئی نعت

جن کو محبوبِ خدا کہتے ہیں

جو تِری ثنا میں نہ ہو فنا

رہِ طیبہ میں دیوانہ

کشتیاں اپنی کنارے پہ لگائے ہوئے ہیں

رب دیا پیار یا کد ساہ لیسی روح میری دا پارہ