چاند تاروں سے سرِ افلاک آرائش ہوئی

چاند تاروں سے سرِ افلاک آرائش ہوئی

شاہ کے اعزاز میں ہر شے کی پیدائش ہوئی


بس گئیں دل میں امامِ انبیاء کی الفتیں

دور میرے دل سے حبِ زر کی آلائش ہوئی


پھول، خوشبو، رنگ، موسم، چاند، تارے، رات، دن

تیری خاطر دو جہاں کی خوب زیبائش ہوئی


تیرا صدقہ بانٹتا ہے خالقِ ارض و سماء

تیرے صدقے میں ہمیں حاصل ہر آسائش ہوئی


پوری کر دی خالقِ کونین نے یکبارگی

حاصلِ کون و مکاں کی جو بھی فرمائش ہوئی


کر محبت آل سے اصحاب سے قرآن سے

شاہِ بحر و بر کی جانب سے یہ فہمائش ہوئی


جب کہا صلِ علیٰ اشفاقؔ ہم نے جھوم کر

باغِ جنت کی بہت ہی خوب افزائش ہوئی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

زبان پر جب درود آئے

ہم درِ یار پہ سر اپنا جھکا لیتے ہیں

حق اللہ کی بولی بول

کیوں نہ دل میں وقعت ہو اس قدر مدینے کی

اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نُورِ باری حجاب میں ہے

جو تِری ثنا میں نہ ہو فنا

اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی

کیف پایا اے ہواواں نے مدینے وچوں

میں بُوہے پلکاں دے اک پل نہ ڈھوواں یا رسول اللہ