دھو کر زباں کو زمزم و عرقِ گلاب سے
لب کھولتا ہوں اسمِ رسالت مآب سے
میرے وطن کی سمت ہو ٹھنڈی ہوا کا رخ
آقاؐ ہے عرض آپ کی عالی جناب سے
کچھ حبِّ مصطفیٰؐ کے سوا سوجھتا نہیں
گزروں میں کیسے فکرِ گناہ و ثواب سے
چشمانِ سر کے سامنے پردے ہزار ہیں
ہے ماورا جو دل کی نظر ہر نقاب سے
کیا باریابِ حسنِ تجلّی! ہے تیرا راز
ہے خواب میں سوال یہ خوابوں کے خواب سے
جملہ مصنفین و مدیراں یہ جان لو
حسنِ نگارشات ہے سیرت کے باب سے
ممنوں ہو کیوں نہ گلشنِ ہستی حضورؐ کا
شاداب ہو رہا ہے کرم کے سحاب سے
اک شاعرِ رسولؐ کے ہے نام یہ کتاب
دل باغ باغ ہے مرا اس انتساب سے
نظّارہ ہو گا شاہؐ کے نعلین پاک کا
جب سر جھکے گا آپؐکے جلوے کی تاب سے
تسکینِ اذنِ حاضری بخشیں گے وہ ضرور
واقف ہیں آنحضورؐ مرے اضطراب سے
طاہرؔ ہوں ان کے سامنے جانے پہ شرمسار
خائف نہیں ہوں سختیِ روزِ حساب سے