دلِ محزوں میں یاد ِ مصطؐفےٰ ہے
اندھیرے میں اک چراغ جل رہا ہے
ملا ہے مرسلِؐ رحمت کا داماں
غمِ دوراں سے اب کیا واسطا ہے
سفینے کو نہیں کچھ خوفِ طوفاں
پناہِ سرورِؐ دیں میں چلا ہے
ہیں اس کے نام کی نسبت پہ نازاں
جو ساری اُمتّوں کا رہنما ہے
جو اسرارِ الہیٰ کا ہے محرم
وہی جو تاجدارِ انبیا ہے
ازل سے جس کی عظمت ہے مسلّم
ابد تک کے لیے جو پیشوا ہے
تصرف میں ہے جس کے ذہنِ عالم
جو قلب و روح کا فرمانروا ہے
کیاہے نعت میں دیوان تائبؔ
مری بخشش کا ساماں ہوگیا ہے