دل مدینے میں رہے جان مدینے میں رہے

دل مدینے میں رہے جان مدینے میں رہے

میرا سارا سرو سامان مدینے میں رہے


بس وہی جانتا ہے شانِ کرم کا مفہوم ،

بن کہ جو آپ کا مہمان مدینے میں رہے


میں اسے کعبہ مقصود نہ سمجھوں کیونکر

میرا ایمان جب ایمان مدینے میں رہے


آپکی یاد میں جو وقت گزارا ہم نے

یوں لگا جیسے کہ ہر آن مدینے میں رہے


شوقِ دیدار سوِ ا ہوگیا دیدار کے بعد

دل کو اب بھی ہے ارمان مدینے میں رہے


میرے آقا کی کریمی کا اثر تو دیکھو

بن کے نادار بھی سلطان مدینے میں رہے


انکے جلووں سے نگاہوں کا ہے وہ ربطِ دوام

واقعی ہم بہر عنوان مدینے میں رہے


کعبہ کعبہ ہے وہاں قیمت سجدہ ہے بُہت

عشق کہتا ہے مگر دھیان مدینے میں رہے


یہی غربت ہے کہ مہجور رہے دور رہے

یہی دولت ہے کہ انسان مدینے میں رہے


رنج و دوری کا بھی سہہ سکتے ہیں لیکن آقا

حاضری کا بھی ایک امکان مدینے میں رہے


صبح پُر کیف حسیں شام منّور راتیں

مرحلے زیست کے آسان مدینے میں رہے


میرا ایمان مری جان یہ سامانِ حیات

رات دن ہونے کو قربان مدینے میں رہے


حاضری بھی بڑا انعام ہے خالدؔ کیلئے

اس پہ ہوجائے یہ احسان مدینے میں رہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار

شفیعِ حشر ہی کے سر شفاعتوں کا تاج ہے

ترےؐ غلام کا انعام ہے عذاب نہیں

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار

ہیں مہر و ماہتاب کی ہر سُو تجّلیات

یا سیدِ ابرار تِرا موئے مبارک

ہم سے نہ یہ پوچھے کوئی، کیا دیکھ رہے ہیں

کہتا ہے کون آپ ہمارے قریں نہیں

عقل محدود ہے عشق ہے بیکراں

مدینے والے دے در دے اُتے دِلاں دی ایسی اے تار ملدی