دل میں پیدا کیجیے ڈر کاتبِ تقدیر کا

دل میں پیدا کیجیے ڈر کاتبِ تقدیر کا

تب اثر دشمن پہ ہوگا نعرۂ تکبیر کا


نور پھیلا چار سو اسلام کی تنویر کا

ختم قصہ ہو گیا باطل کی ہر تدبیر کا


داعیِ امن و محبت کی ہوئی جلوہ گری

ہوگیا دو لخت حلقہ ظلم کی زنجیر کا


درس و تبلیغِ مساواتِ پیمبر کے طفیل

ہو گیا تبدیل نقشہ دہر کی تقدیر کا


تیری عظمت کے فقط ہم ہی نہیں ہیں معترف

ہے فرازِ عرش پر پرچم تری توقیر کا


اس میں تخریب و تشدد کا نہیں گرد و غبار

مذہبِ اسلام ہے اک آئنہ تعمیر کا


حضرتِ صدیق نے بن کر عزائم کی چٹان

وار خالی کر دیا فتنہ گروں کے تیر کا


کیا حسیں جمہوریت کا دور تھا دورِ عمر

ہر طرف تھا نور غالب عدل کی تنویر کا


سرورِ دیں نے عطا کیں عقد میں دو بیٹیاں

اللہ اللہ مرتبہ عثمان کی توقیر کا


محوِ حیرت کفر تھا خیبر میں جلوہ دیکھ کر

زورِ بازوئے علی کا، حیدری شمشیر کا


بخش دے شہرِ نبیؐ کی خاکروبی کا شرف

یا خدا احسنؔ نہیں خواہاں کسی تشہیر کا

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

حبیب خدا ہیں حسیں ہیں محمّد

مکاں عرش اُن کا فلک فرش اُن کا

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

میں لجپالاں کریماں دے دوارے تے صدا کرنا

پل دے پئے نے دو جہاں صدقے حضور دے

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں

کردا رہو سوہنے دیاں باتاں اک دن سوہنا آجاوے گا

زمیں کے ساتوں طبق ساتوں آسماں مہکے

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں

اللہ نے حِرا میں بٹھایا ہے آپ کو