دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

دنیا کی کشمکش میں نہ فکرِ وباء میں ہم

یہ سال بھی گزاریں گے مدح و ثناء میں ہم


ہر سال حاضری کی سند دستخط شدہ

اِس سال جا کے لائیں گے دستِ دعا میں ہم


مکّے میں گزریں کاش کہ ذوالحج کے رات دن

رمَضان جب گزار لیں شہرِ عطا میں ہم


تیرے قریب ہی کہیں اے آفتابِ حسن !

تھامیں رکھیں گے فکر و قلم کی لگامیں ہم


آلِ عبا کے عشق میں رہتے ہیں ہر گھڑی

گویا کہ رہ رہے ہیں دلِ مصطفٰی میں ہم


آواز آئی کون بچائے گا دیں مِرا

بولے حسین وادئ کرب و بلا میں ہم


کونین کے حسین نظاروں سے پوچھ لو

کیوں گم ہیں شوقِ دیدِ رخِ والضُّحٰی میں ہم


بس مقصدِ حیاتِ تبسم یہی تو ہے

بِیتائیں قربِ گنبدِ خضرٰی میں شامیں ہم

دیگر کلام

روشن ہو مرے دل میں دیا ان کی ولا کا

میرے ہاتھوں میں جام ساقی کا

عطا کرتی ہے شان ماوَرائی یا رَسُول اللہ

من موہنے نبی مکی مدنی ہم پر بھی کرم فرما جانا

ہیں محمد ﷺ روحِ حیات

طرزِ سرکارؐ کو بس جانِ انقلاب لکھو

رشتہء جسم و جاں ہیں میرے حضورؐ

جب مجھے حسنِ التماس ملا

پھیلا ہوا ہے دہر میں مدحت کا سلسلہ

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا