ہے تشنہ آرزو ‘ آقا !

ہے تشنہ آرزو ‘ آقا ! مدینے اب بلا لیجے

بھلائی آپ کا شیوہ ‘ فقیروں سے بھلا کیجے


پشیماں ہیں کھڑے مجرم اُدھر محشر کی گرمی ہے

کرم کیجئے گنہگاروں کو دامن میں چھپا لیجے


نہ گھبرانا گنہگارو ! ابھی اُمّید باقی ہے

وہ آئے شافعِ محشر سو عرضِ مدعا کیجے


نہیں معلوم پھر آنا یہاں کب ہو مقدّر میں

مدینے کا حسیں منظر نگاہوں میں بسا لیجے


جلیل ! اُن کی غلامی نے یہ عقدہ ہم پہ کھولا ہے

خُدا بھی مان جائے گا اگر اُن سے وفا کیجے