ہے یہ آواز میرے سینے کی

ہے یہ آواز میرے سینے کی

زندگی دے مجھے مدینے کی


کس کو خواہش نہیں ہے جینے کی

زندگی ہو تو ہو مدینے کی


ذکر احمد کا ہے سرور بڑا

مجھ کو عادت نہیں ہے پینے کی


ذکر خیر البشر میں رات کٹے

کوئی شب تو سجے شبینے کی


ہے معطر جو گلستان حیات

ہے یہ خوشبو ترے پسینے کی


گھیر رکھا ہے غم کی لہروں نے

خیر آقا میرے سفینے کی


جس کو آقا پسند فرمائیں

بات ہوتی ہے وہ قرینے کی


عشق خیر البشر میں مر جانا

دوستو یہ سند ہے جینے کی


اپنا رونا نہ رو نیازی تو

بات ہم کو سنا مدینے کی

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

کیہنوں میں دُکھ پھول سناواں کیہنوں میں پھٹ کھول دکھاواں

کب اپنے سر پہ اُنؐ کے کَرم کی رِدا نہیں؟

بخشی گئی جو نعمتِ مدح و ثنا مجھے

آئیں گے لمحات خوشی کے

اوتھے دل بس ایخو ای چاہوندا سی مسجدِ نبوی دے در و دیوار چُمّاں

آپ کی نسبت اے نانائے حُسین

کیوں عمر شرح زلفِ بُتاں میں گنوائی جائے

فلک خوبصورت سجایا نہ ہندا

محبوب خدا ایک نظر دیکھنے آئے