ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

ہمیں نسبت ہے آقا سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے

محبت ہی محبت ہے معافی ہی معافی ہے


ہماری زندگانی بٹ گئی ہے دو قبیلوں میں

نظر آوارۂ اسباب ہے دل اعتکافی ہے


ہم ان سے پیار بھی کرتے ہیں دنیا پر بھی مرتے ہیں

زباں اقرار نامہ ہے عمل وعدہ خلافی ہے


معالج کوئی اپنا اُن سے بڑھ کر ہو نہیں سکتا

نظر ان کی مسیحا ہے توجہ ان کی شافی ہے


سجائیں زندگی اپنی درودوں سے سلاموں سے

یہی ظاہر کا صافہ ہے یہی باطن کی صافی ہے


غزل میں بھی مظفر وارثی حق بات کرتے ہیں

مگر پھر بھی ہماری نعت غزلوں کی تلافی ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

کتنی صدیوں سے چمکتا تھا ہمارا سورج

بحمد اللہ گداؤں کو ملا داتا کا در ایسا

اے نقطۂِ سطوحِ جہاں ! اے مدارِ خلق

شربتِ دیدار پیاسوں کو پلاتے ہیں ضرور

کوئی کیا جانے کیا ہے مے خانہ

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

ذہن کے سادہ اُفق پر تیری خوشبو اور تُو

لے کے انگڑائی زمیں جاگ اٹھی ہو جیسے

!بے رنگ سے دن رات ہیں اے سیّدِ ساداتؐ

دلدار بڑے آئے محبوب بڑے دیکھے