ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

ہر طلب سے سوا ہے ان کا کرم


بے طلب ملتی ہے وہاں خیرات

بے نیازِ دعا ہے ان کا کرم


ہم سے پوچھو کہ غم نصیبوں کو

کس قدر چاہتا ہے ان کا کرم


جس کا پرسانِ حال کوئی نہ ہو

اس کا مشکل کشا ہے ان کا کرم


بے اماں کی اماں ہے ان کی نظر

ناتواں کا عصا ہے ان کا کرم


کھل کے برسی ہے جب بھی برسی ہے

رحمتوں کی گھٹا ہے ان کا کر م


اتنے دامن کہاں سے لائے کوئی

اک مسلسل عطا ہے ان کا کرم


بخششوں کی سند ہے ان کا مزاج

عہدِ روزِ جزا ہے ان کا کرم


دل نہ چھوٹا کیا کرو اقبؔال

تم کو پہچانتا ہے ان کا کرم

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفیٰؐ آؤ

اک در دے ہو کے بہہ گئے آں در در تے گدائیاں کیتیاں نئیں

اساڈی یا رسول اللہ مدینے حاضری ہووے

میں چھٹیاں غم دیاں نت روز پاواں کملی والے نوں،

سلگتے صحرا پہ خوش نصیبی

سُنی تھیں جتنی بہشتِ بریں کی تعریفیں

ملا ہے عشق محمدؐ سے یہ وقار مجھے

مصائب میں تُجھ سے توسل کیا

رحمت نہ کس طرح ہو ُگنہ گار کی طرف

دل و جاں کو ہر آفت سے بچا کر ہم بھی دیکھیں گے