ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم
ہر طلب سے سوا ہے ان کا کرم
بے طلب ملتی ہے وہاں خیرات
بے نیازِ دعا ہے ان کا کرم
ہم سے پوچھو کہ غم نصیبوں کو
کس قدر چاہتا ہے ان کا کرم
جس کا پرسانِ حال کوئی نہ ہو
اس کا مشکل کشا ہے ان کا کرم
بے اماں کی اماں ہے ان کی نظر
ناتواں کا عصا ہے ان کا کرم
کھل کے برسی ہے جب بھی برسی ہے
رحمتوں کی گھٹا ہے ان کا کر م
اتنے دامن کہاں سے لائے کوئی
اک مسلسل عطا ہے ان کا کرم
بخششوں کی سند ہے ان کا مزاج
عہدِ روزِ جزا ہے ان کا کرم
دل نہ چھوٹا کیا کرو اقبؔال
تم کو پہچانتا ہے ان کا کرم
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم