حضور آئے، روشنی سے انسلاک ہو گیا

حضور آئے، روشنی سے انسلاک ہو گیا

غرور ظلمتوں کا ایک پل میں خاک ہو گیا


کہاں خدائے لم یزل کہاں میں خاک سر بسر

مگر حبیب پر ہمارا اشتراک ہو گیا


ہمارے فکر و فن پہ آپ نے بڑا کرم کیا

ہمارا نعتِ مصطفیٰ میں انہماک ہو گیا


جواہرِ علوم اس قدر لٹائے آپ نے

زمانہ جہل کی کثافتوں سے پاک ہو گیا


ادب کیا تو بے شمار مرتبے عطا ہوئے

جو بے ادب ہوا حضور کا، ہلاک ہو گیا


حضور نے بلا کے سنگِ در پہ اک نگاہ کی

رفو ہمارے قلب کا ہر ایک چاک ہو گیا


مشامِ جاں میں درد فرقتوں کا تھا بسا ہوا

مریضِ غم مدینے جا کے ٹھیک ٹھاک ہو گیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

دردی ایں جگ دا غم دے اسیراں دی سارے

حالِ زارِ من بہ بیں یا رحمتہ اللعالمیں

وُہ ہیں محمّد ، وہی ہیں احمدؐ

سرور دو عالم کی شان ہے کریمانہ

نگاہِ مہر جو اس مہر کی اِدھر ہوجائے

یارب پھر اَوج پر یہ ہمارا نصیب ہو

مُنہ فق ہے جس کے سامنے ماہِ تمام کا

مشامِ جان میں مہکا خیالِ سیدِ عالم

میرے نبی پیارے نبی ہے مرتبہ بالا ترا

چاند کی چھاتی چاک انگوریاں نیر بہائیں