حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے
زندگی آپؐ کے قدموں میں گزاروں کیسے
میں نے دیکھا تو نہیں آپؐ کو ، سوچا ہے بہت
خیرہ آنکھوں میں خد و خال اُبھاروں کیسے
جسم کے ساتھ مری رُوح بھی آلودہ ہے
رُوح میں آپؐ کے جلووں کو اتاروں کیسے
اِک لگن ہے کہ شب و روز رلاتی ہے مُجھے
میرے آقاؐ یہ شب و روز گزاروں کیسے
اے خبر گیر و خطا پوش و خطا بخش مرے
اتنی بگڑی ہُوئی صُورت کو سنواروں کیسے
یاد آتے ہیں مصیبت میں ہمیشہ غم خوار
” یا محمدؐ“ نہ کہوں میں تو پکاروں کیسے
آپؐ کے قدموں پہ جُھکنے کو جبیں ہے بیتاب
آپؐ کا حکم نہیں سجدہ گزاروں کیسے
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام