حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

حاضری قرض ہے یہ قرض اتاروں کیسے

زندگی آپؐ کے قدموں میں گزاروں کیسے


میں نے دیکھا تو نہیں آپؐ کو ، سوچا ہے بہت

خیرہ آنکھوں میں خد و خال اُبھاروں کیسے


جسم کے ساتھ مری رُوح بھی آلودہ ہے

رُوح میں آپؐ کے جلووں کو اتاروں کیسے


اِک لگن ہے کہ شب و روز رلاتی ہے مُجھے

میرے آقاؐ یہ شب و روز گزاروں کیسے


اے خبر گیر و خطا پوش و خطا بخش مرے

اتنی بگڑی ہُوئی صُورت کو سنواروں کیسے


یاد آتے ہیں مصیبت میں ہمیشہ غم خوار

” یا محمدؐ“ نہ کہوں میں تو پکاروں کیسے


آپؐ کے قدموں پہ جُھکنے کو جبیں ہے بیتاب

آپؐ کا حکم نہیں سجدہ گزاروں کیسے

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

وہ جو قرآن ہو گیا ہوگا

ہے بے قرار دعا جیسے مُدّعا کے بغیر

ثنا کی خو درودوں کی بدولت ساتھ رہتی ہے

ان کی جام جم آنکھیں شیشہ ہے بدن میرا

بس جائے اگر دل میں دل آرائے مدینہ

کیا ہے نامِ مصطفیؐ زباں سے لف

سکونِ دل آرامِ جاں مل گیا ہے

کم نظر آتے ہیں دیوانۂ آقاؐ مخلص

پنجابی ترجمہ: کَسے بود یا رب کہ رُو در یثرب و بَطحا کنم

حق ادا نعت کا اے راحتِ جاں کیسے ہو