حسنِ سرکار کا جو لے کے نمک جاتے ہیں
ظلمتِ قبر میں وہ چہرے چمک جاتے ہیں
پھول ہے جس کا سراپا ہے پسینہ خوشبو
ذکر اس کا ہو تو اطراف مہک جاتے ہیں
کالپی ہو کہ بریلی ہو کہ مارہرہ ہو
راستے سارے ہی سرکار تلک جاتے ہیں
دیکھ کر گنبدِ خضرا کا مِرے گھر طغرا
قافلے رنج و مصائب کے ٹھٹھک جاتے ہیں
وہ رجب ہو کہ ہو ذی الحج کہ ربیع الثانی
سب مہینے مجھے دے دے کے کسک جاتے ہیں
پیش کرتے رہیں سرکار کی خدمت میں شفیقؔ
ڈالیاں لے کے درودوں کی ملک جاتے ہیں
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا