جب بھی درِ رسول پہ جا کر کھڑا ہوا

جب بھی درِ رسول پہ جا کر کھڑا ہوا

جاتے ہی مجھ کو رتبۂ زائر عطا ہوا


جس کے لبوں پہ رہتا ہے قندِ درودِ پاک

اُس شخص کا ہے شہد میں لہجہ گُھلا ہوا


صد شکر ہے کہ میں بھی کھڑا ہوں اُسی جگہ

جس جا ہے قدسیان کا تانتا بندھا ہوا


ہو کر درِ علی سے جو پہنچا نبی کے در

در علم و آگہی کا اُسی پر ہی وا ہوا


آئے نہ میرا وقتِ اجل حاضری سے قبل

بس ہر گھڑی ہے مجھ کو یہ دھڑکا لگا ہوا


کامل یقیں ہے ہوگا تناور درخت بھی

عشقِ نبی کا دل میں ہے پودا لگا ہوا


ملتی نہیں جہان میں اُس کو کہیں پناہ

کوئے رسولِ پاک سے ہے جو پھرا ہوا


رحمت کی بارشیں ہیں وہاں رات دن جلیل

جس گھر میں ہے درود کا حلقہ سجا ہوا

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

ہم درد کے ماروں کا ہے کام صدا کرنا

یہ مانا مرے پاس دولت نہیں ہے

میں پہنچوں گا دنیائے رشکِ جناں میں

نعتِ سرور ہے شاعری میری

ہو جو مقبول شاعری میری

جب بھی درِ رسول پہ جا کر کھڑا ہوا

جود و کرم کریم نے جس پر بھی

دیتی نہیں ہیں جلوتیں

تمنّا ہے شعور و آگہی کی

درِ اقدس پہ جا کر ہم

اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا