جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے
قدسی اُدھر سے ٹھنڈی ہوا لے کے چل پڑے
مشغولِ سجدہ قلب و نظر ہیں ترے حضور
ایسے میں کاش آئے قضا لے کے چل پڑے
جب آپ مسکرائے تو گلشن سے یک بیک
موسم خزاں کے اپنی ادا لے کے چل پڑے
آگے کیا حضور کی نسبت کو حشر میں
پھر پیچھے پیچھے اپنے حوالے کے چل پڑے
گزرا خیال آپ کا میدانِ قلب سے
غم ایک دوسرے سے دعا لے کے چل پڑے
میں نے پکارا دلدلِ عصیاں سے جب انہیں
آئے حضور، ہاتھ دیا، لے کے چل پڑے
بے خوف ہو کے جائیں تبسم وہ خلد کو
جو لوگ وردِ صلِّ علٰی لے کے چل پڑے