جب شامِ سفر تاریک ہوئی وہ چاند ہو یدا اور ہوا
منزل کی لگن کچھ اور بڑھی ، دل زمزمہ پیرا اور ہوا
جب کُہرفضاؤں پر چھائی ، جب صورت ِ فردا دُھندلائی
منظر منظر سے جلوہ فشاں وہ گنبدِ خضرا اور ہوا
ہر حال میں اُن کی موجِ کرم ، تھی چارہ گرِ ادبار و الم
حد سے گزری جب تلخی غم لطفِ شہؐ بطحا اور ہوا
جوں جوں وُہ، حرم نزدیک آیا، کب نظّارے کا یارا تھا
جھکتی ہوئی نظریں اور جھکیں ، سوچوں میں اجالا اور ہوا
اندازِ پذیرائی سے ہوا، رنگ اُن کی محبّت کا گہرا
رحمت کے دریچے اور کُھلے، مدحت کا تقاضا اور ہوا
پہلے بھی اُس کی تابانی، کچھ رُوئے زمیں پر کم تو نہ تھی
جب ثور کی منزل سے گزرا اُس ماہ کا چرچا اور ہُوا