جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

جہاں بھی ہو وہیں سے دو صدا سرکار سُنتے ہیں

سرِ آئینہ سُنتے ہیں پسِ دیوار سُنتے ہیں


مِرا ہر سانْس اُن کی آہٹوں کے ساتھ چلتا ہے

مِرے دل کے دھڑکنے کی بھی وہ رفتار سُنتے ہیں


کھڑے رہتے ہیں اہلِ تخت بھی دہلیز پر اُن کی

فقیروں کی صدائیں بھی شہِ ابرار سُنتے ہیں


گنہگارو درودِ والہانہ بھیج کر دیکھو

وہ اپنے اُمّتی کا نغمۂ کردار سُنتے ہیں


وہ یُوں مِلتے ہیں جیسے زندگی میں کوئی مِلتا ہے

وہ سُنتے ہیں ہر اِک کی اور سرِ دربار سُنتے ہیں


مَیں صدقے جاؤں اُن کی رَحْمَةُ الِّلْعَالَمِیْنی کے

پکارو چاہے کِتنی بار وہ ہر بار سُنتے ہیں


مُظفّر جب کِسی محفل میں اُن کی نعت پڑھتا ہُوں

مِرا ایمان ہے وہ بھی مرے اشعار سُنتے ہیں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

زہے عزتِ و افتخارِ مدینہ

(بحوالہ معراج)جانبِ عرش ہے حضرتؐ کا سفر آج کی رات

عجز و آدابِ محبت کا جو حامل نہیں ہے

غمزدوں کے لیے رحمتِ مصطفیٰﷺ

میں اندھیرے میں ہوں ‘ تنویر کہاں سے لاؤں

ہم صبح و شام کرتے ہیں مدحت رسول کی

اُدھر دونوں عالم کے والی کا در ہو

زندگی کے راستوں سے

اے شہِ ہر دوسرا سرور و سُلطانِ زماں

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اے سروَرِ عالی مقام