جلوہ گر آج ہوئے مونس و غم خوار و شفیق

جلوہ گر آج ہوئے مونس و غم خوار و شفیق

شادمان ہوگئے دریائے مصائب کے غریق


آؤ اے بادہ کشو ہاشمی چوکھٹ پہ چلو

بٹ رہی ہے جہاں فیضانِ رسالت کی رحیق


زخم کھا کر بھی ہے جس کے لب اطہر پہ دعا

ذاتِ پاکِ شہِ والا ہے وہ کس درجہ خلیق


اے حلیمہ! ہو مبارک تجھے معراجِ خوشی

تیری آغوش میں ہے جلوہ نما ذاتِ شفیق


دے دیا درسِ پیمبر نے انھیں اوجِ حیات

چل رہے تھے جو گنہگار سوئے غارِ عمیق


باغِ طیبہ کا وہ منظر ہے کہ جس کے آگے

ہیچ ہیں باغِ عدن، وادیِ ایمن کے حدیق


اللہ اللہ یہ اعجازِ رسولِ عربی

کردیا سنگِ سرِ راہ کو صد رشکِ عقیق


کتنے خوش بخت ہیں وہ خاصۂ خاصانِ نبیؐ

خلد میں جائیں گے بن کر جو پیمبر کے رفیق


یارِ غارِ شہِ والا کا شرف حاصل ہے

امتِ سرورِ کونین میں افضل ہیں عتیق


یوں ہی رسوائے زمانہ نہیں ہم لوگ احسؔن

ہم سے چھوٹا ہے پیمبر کا عطا کردہ طریق

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

مجھ کو دیدارِ درِ پاکِ رسالت کا شرف

نورِ حق سے ہے رنگِ جہاں مختلف

رحمتوں کا پُر تجلی ہے سماں چاروں طرف

آقاؐ کی ثنا مدحِ نبیؐ آیۂ توصیف

مبعوث جب حضورؐ ہوئے لے کے دینِ حق

جلوہ گر آج ہوئے مونس و غم خوار و شفیق

آپ کی جلوہ گری ہوتی نہ گر منظورِ حق

چار سو بکھری ہوئی ہے نور و نکہت کی چمک

آستانِ مصطفیٰؐ ہے سب سے اعلیٰ آج تک

تسکینِ روح و قلب کا نغمہ ہے نعتِ پاک

آپ آئے ہوا حسنِ منظر الگ