جن کے لب پہ رہے ذکر صلی علیٰ ان کی حسن مقدر کی کیا بات ہے

جن کے لب پہ رہے ذکر صلی علیٰ ان کی حسن مقدر کی کیا بات ہے

جس میں جلوے ہوں طیبہ کے ہر دم بے ایسے پیارے تصور کی کیا بات ہے


جشن معراج کی ابتدا دیکھئے شان محبوب رب العلیٰ دیکھئے

آگے محبوب رب انبیاء پیچھے سب صحن اقصیٰ کے منظر کی کیا بات ہے


جسکی چوکھٹ پہ جلوؤں کی بارش رہے جسکے ٹکڑوں پہ سب کا گزارا ہے

جس کے در پہ خدا کی خدائی جھکے اس کے دربار اطہر کی کیا بات ہے


نفسی نفسی کی محشر میں ہو گی ندا اُمتی اُمتی ہو گی ان کی صدا

جس کی چاہے گا خالق بھی اس دن رضا ایسے شافع محشر کی کیا بات ہے


ایک وہ جن کی حسرت ہے دربار کی ایک وہ جن کی ہر دم رہی حاضری

جن کو دولت ملی تیرے دیدار کی ان کے بخت سکندر کی کیا بات ہے


ہے نیازی پہ کتنا کرم آپ کا نعت خوانی سے مجھ کو مشرف کیا

اپنی رحمت سے پھر شیخ کامل دیا ان کے لطف مکرر کی کیا بات ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

لبیک اللّٰھم لبیک

نعتیہ اشعار

ساری خلقت تری یا رب سبھی موسم تیرے

رنجِشیں دل سے یوں مِٹاتا ہُوں

میرے دل دا مالک میرے گھر دا والی

ناں اک پل وی کدی آرام آوے یارسول الله

لَحد میں عشقِ رخِ شہ کاداغ لے کے چلے

ہو نگاہ کرم کملی والے تیرے بن کوئی میرا نہیں ہے

دلِ ناداں نہ حرصِ دُنیا کر

جس کا دل منبعِ حُبِ شہِ والا ہوگا