جس طرف سے وہ گُلِ گُلشنِ عدنان گیا

جس طرف سے وہ گُلِ گُلشنِ عدنان گیا

ساتھ ہی قافلہ سُنبل و ریحان گیا


اِس بُلندی پہ نہ ہر گز کوئی انسان گیا

عرش پر بن کے وہ اللہ کا مہمان گیا


لے کے جنّت کی طرف جب مجھے رضوان گیا

شور اُٹھّا ، وہ گدائے شہِ ذیشان گیا


مجھ خطا کار پہ کیا کیا نہ کیئے تُو نے کرم

میرے آقاؐ ! تری رحمت کے مَیں قربان گیا


اِتنی تسکیں پسِ فریاد کہاں مِلتی ہے

کوئی مائل بہ سماعت ہے ، یہ دل جان گیا


اُس کی دامن میں نہیں کچھ بھی ندامت کے سِوا

جس کے ہاتھوں سے ترا دامنِ احسان گیا


جب قدم دائرہ عشقِ نبیؐ سے نکلا

بات ایمان کی اِتنی ہے کہ ایمان گیا


ظلمتِ دہر میں تھا کا ہکشاں اُن کا خیال

ذہن پر چادر فیضانِ سَحَر تان گیا


نا خدائی اَسے کہیے کہ خدائی کہیے

میری کشتی کو اُبھارے ہوئے طوفان گیا


کر لیا اُن کو تصّور میں مخاطب جس دم

رُوح کی پیاس بجھی ، قلب کا ہیجان گیا


لفظِ جَا ء ُ وکِ سے ، قرآں نے کیا استقبال

اُن کی چوکھٹ پہ جو بن کر کوئی مہمان گیا


تھا مدینے میں عر ب اور عجم کا مالک

وہ جو مکّہ سے وہاں سے بے سروسامان گیا


دل کا رُخ پھیر لیا قصّہ ہجرت کی طرف

جب تڑپنا نہ شبِ غم کسی عنوان گیا


خاک بوسی کی جو درباں سے اجازت چاہی

للہِ الحمد کہ وہ میرا کہا مان گیا


اُن سے نسبت کی ضیا سے مِرا دل روشن

خیر سے اِس ک بھٹکنے کا ہر امکان گیا


فخرِ دولت بھی غلط ، نازِ نَسَب بھی باطل

کیا یہ کم ہے کہ مَیں دنیا سے مسلمان گیا


شاملِ حال ہوئی جب سے حمایت اُن کی

فتخ کی زد سے نہ بچ کر کوئی میدان گیا


اِس گنہ گار پہ اتمامِ کر تھا ایسا

حشر میں دُور سے رضواں مجھے پیچان گیا


تا درِ خُلد رہی چہرہ انور پہ نظر

سب نے دیکھا کہ مَیں پڑھتا ہُوا قرآن گیا


میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے ، پھر بھی نصیرؔ!

کی محمدؐ نےشفاعت تو خدا مان گیا