جو بھیک لینے کی عشاق جستجو کرتے

جو بھیک لینے کی عشاق جستجو کرتے

مدینہ جا کے نہ آئیں، یہ آرزو کرتے


وہ چار عین، عتیق و عمر، علی، عثماں

نچوڑ دیتے جو دامن مَلک وضو کرتے


مرے نبی کو خدا نے دیا تھا حسن ایسا

کہاں برابری یوسف سے خوبرو کرتے


ہزار بار ہمیں گر طلب کا حق ملتا

ہر ایک بار مدینہ کی آرزو کرتے


یہ کون ہستی ہیں، پوچھا کیے فرشتے سوال

نبی کے سامنے ہم کیسے گفتگو کرتے


اگر کلیم کو آقا کا دور مل جاتا

تو وہ بھی امتی ہونے کی آرزو کرتے


بلال جیسا نہ ہو عشق اگر تو سب بے کار

اگرچہ عمر کٹے ساری ھا و ھو کرتے


جو شیخ نجدی ہمیں ایک بار مل جاتا

تو نام آقا پہ ہم اس سے دوبدو کرتے


ہمیں غلامی میں کر لیجیے حضور قبول

عريضہ پیش یہ آقا کے روبرو کرتے


ہمارے بس میں نہیں اور اگر کہیں ہوتا

ہر ایک وہابی کے منہ پر ہم آخ تھو کرتے


کلام نظمی میں شامل رضائے نوری ہے

عدو جلیں بھنیں تا عمر من و تو کرتے