جوش میں آگئی رحمتِ کبریا

جوش میں آگئی رحمتِ کبریا ہم غریبوں کے حاجت روا آگئے

غم کے ماروں کے غم دور ہونے لگے شور اُٹھا کہ مشکل کشا آگئے


حُسن پر جن کے نازاں ہے شانِ خدا جنکے نقشِ قدم پر دو عالم فِدا

ہیں جو مقصود ِ خلق اور مطلوبِ حق مرحَبا وہ حبیبؐ خدا آگئے


ابرِ رحمت مسلسل برسنے لگا دِل کے پژ مُردہ غنچے مہکنے لگے

مونسِ بیکساں ہادئ گمر ہاں کشتئ نوح کے ناخدا آگئے


بے نِشانوں کو اپنے نشاں مِل گئے نامرادوں کو دُونوں جہاں مِل گئے

کُنتُ کنزًا کا خلوت کدہ چھوڑ کر بزم ہستی میں خیر الوری آگئے


آفتاب ِ رسالت درخشاں ہوا دُور دنیا سے سارا اندھیرا ہوا

ذِکر سے ان کے دل جگمگانے لگا لیکے انوار نور الہُدیٰ آگئے


ہم گنہگار جاتے تو جاتے کہاں مِل گئی اے خوشا انکے در پر اماں

فیض و بخشش کے دَر کھل گئے ہر طرف ہو مبارک شفیع الوریٰ آگئے


کون ہے اس قدر محترم دیکھئے اللہ اللہ یہ حُسن ِ کرم دیکھئے

شرم سے بادشاہوں کی گردن جھکی سامنے جب بھی انکے گدا آگئے


میری مشکل میں مشکل کشائی ہوئی میری رنج و محن سے رہائی ہوئی

عالِم یاس میں جب پکارا انہیں میری اِمداد کو مصطفےٰ آگئے


میں سراپا خطا وہ سرا پا عطا میں گنہگار ہوں وہ شفیع الورا

خالَدؔ بے نوا بخت یا ور ہوا بخشوانے شہِ دوسرا آگئے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

رہنمائی کو ہدایت مِرے سرکار کی ہے

ہو گیا حاجِیوں کا شُروع اب شُمار

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

مان مخلوق دا رب دا ماہی

وہ کہاں شوکتِ خدائی میں ہے

زمن بری بہ مدینہ صبا سلام علیک

میرے شام و سحر مدینے میں

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور

سوزِ دل چاہیے ‘ چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے