خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

خاکِ مدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتا

ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا


آقا اگر کرم سے طیبہ مجھے بُلاتے

روضہ پہ صدقہ ہوتا ان پر نثار ہوتا


وہ بیکسوں کے آقا بے کس کو گر بُلاتے

کیوں سب کی ٹھوکروں پرپڑکر وہ خوار ہوتا


طیبہ میں گر میسر دو گز زمین ہوتی

ان کے قریب بستا دِل کو قرار ہوتا


مر مٹ کے خوب لگتی مِٹی مری ٹھکانے

گر ان کی رہ گزر پر میرا مزار ہوتا


یہ آرزو ہے دل کی ہوتا وہ سبز گنبد

اور میں غبار بن کر اس پر نثار ہوتا


بے چین دل کو اب تک سمجھا بجھا کے رکھا

مگر اب تو اس سے آقا نہیں انتظار ہوتا


سالکؔ ہوئے ہم ان کے وہ بھی ہوئے ہمارے

دلِ مضطرب کو لیکن نہیں اعتبار ہوتا

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

سارے غلام سرخرو سارے غلام سرفراز

روشنی کا لمحہ لمحہ روشنی پر وار دُوں

ہاں بے پر یارسول اللہ کرم کر یا رسول الله

شجر خوب صورت حجر خوب صورت

مصطَفٰے کا کرم ہوگیا ہے

ہر تھاں اُجالے مُحمد دے

کائناتِ زمیں ہے عقبیٰ ہے

پاک مُحمّد جگ دا والی

سکونِ دل آرامِ جاں مل گیا ہے

ہر وقت اُڈیکاں لگیاں مینوں سوہنے دے دربار دیاں