خزانے رحمت کے بٹ رہے ہیں نبی ہمارا بڑا سخی ہے

خزانے رحمت کے بٹ رہے ہیں نبی ہمارا بڑا سخی ہے

کریم کی ہے کرم نوازی ہماری جھولی بھری ہوئی ہے


ادھر اُدھر نہ پھرو گداؤ حبیب داور کے در پر آؤ

جو مانگنا ہے نبی سے مانگو نبی کے گھر کونسی کمی ہے


میرے نبی کی ہے شان بالا بڑا سخی ہے مدینے والا

ہمیں تو جو کچھ بھی مل رہا ہے یہ مہربانی حضور کی ہے


محبتوں کا اسیر اچھا درِ نبی کا فقیر اچھا

جسے بھی نسبت ہے مصطفیٰ سے بڑا مقدر کا وہ دھنی ہے


وہ دیکھ جلوے در نبی کے کنول کھلے ہیں محبتوں کے

نبی کا گلشن بہار پر ہے فضائے طیبہ مہک رہی ہے


ادھر بھی رحمت کی ہو نجریا رہے سلامت تری نگریا

میں سبز گنبد کے دیکھوں جلوے بڑی طبیعت مچل رہی ہے


جو وقت آئے کبھی سہانا اے دوست جب ہو مدینے جانا

سنبھل سنبھل کے قدم اٹھانا حضور کے در کی حاضری ہے


زمین فلک چاند اور ستارے یہ دو جہاں کے حسین نظارے

خدا کی ساری خدائی پیارے مرے نبی کے لیے بنی ہے


میں نعت کہتا ہوں مصطفیٰ کی میں نعت پڑھتا ہوں مصطفیٰ کی

نیازی میری یہ زندگی ہے نیازی میری یہ بندگی ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

آمد ہے نبی کی مکے میں ہر سمت ملک کا ہے جمگھٹ

نامہ میں مرے بارِ گنہ کم تو نہیں ہے

ایہو سدا سوچ دا معیار ہوناں چاہی دا

یا محمد دو جہاں میں آپ سا کوئی نہیں

تصوّر میں اُنہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

ہے تقدیسِ شمس و قمر سبز گُنبد

آمدِ مصطَفیٰ مرحبا مرحبا

دیکھو تو ذرا نسبت سلطان مدینہ

مرحلۂ شوق پھر اِک سر ہوا

تم پہ سَلام ِ کِر دگار